Friday, February 5, 2016

FlipSide of Intizar Hussain انتظار ختم ہوا!

انتظار ختم ہوا!

عامر ریاض
FlipSide of Intizar Hussain 
We are habitual of making heros or zeros and in such derives we often fail to acknowledge a person with his qualities as well as short comings. Many people wrote about Intizar Hussain yet there are some missing links. I tried to explore it and that is why it is called the Flipside. 

اْردو کا نوحہ تو انھوں نے خوب رقم کیا مگر اس زبان کو پاکستانی مادری زبانوں سے جوڑنے کی بصیرتوں سے دور ہی رہے

ترقی پسندوں اور روسی انقلاب سے انہیں چڑ تھی جو انہیں مذہبی قوم پرستی کی دلدل تک لے گئی۔

وہ سمجھتے تھے کہ پی پی پی کے ذریعے پاکستان میں سوشلزم اور روسی نظام کی تحسین ہونے لگی ہے جواس ملک کو ’’اسلامیان ہند‘‘ بنانے میں رکاوٹ ثابت ہو گی


 ضیا جاتے جاتے ایم کیو ایم کا تحفہ دے گیا تو انتظار نے’’آگے سمندر ہے‘‘ لکھ کر اپنا رانجھا راضی رکھا۔

معاشی لالچ پر مبنی ادبی بحرانوں اور سیاسی لالچ پر مبنی معاشی بحرانوں سے بچ کر نکلنا جوئے شیر لانے سے بھی کٹھن ہے کہ یہ ظرف پنجابی سندھی صوفی شاعروں ہی کو حاصل رہا۔ وہ قصیدوں سے بھی پرے رہے اور راج دربار و طاقت کی غلام گردشوں سے گذرے ہی نہیں۔ مگر انتظار حسین نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا، مذہب و قوم پرستی کا کشتہ بنایا، کہانیاں لکھیں، ترجمے کیے اور کالم نویسی بھی کرتے رہے۔

وہ تمام عمر اک ایسی زبان کا ’’نوحہ‘‘ لکھتے رہے جسے مغربی پاکستان کے 80 فیصدی لوگوں پرپاکستان کی پیدائش سے بھی 82 سال قبل ہی حکمرانیاں مل چکی تھیں۔ 1865 وہ سال تھا جب امریکہ میں آزادیوں کا سورج ابراہم لنکن کے وسیلہ سے بلند ہورہا تھا مگر ہمارے ہاں پنجاب، قلات، پشاور اور کشمیر میں نو آبادیاتی حکمرانوں نے اُردو زبان کو زبردستی نافظ کرنے کا آغازکیا۔لدھیانہ سے دلی تک کے پنجابی علاقوں میں وو اس زبان کے نفاذ کا ٹریلر چلا چکے تھے کہ وہ علاقے انگریزی تسلط میں 1809 سے آچکے تھے۔قرارداد مقاصد کی منظوریوں کے بعد اْردو، اسلام اور مرکزیت پسندیوں کا جو ’’کشتہ‘‘ وطنی تشکیلات کے لیے ضروری قرار دیا تھا اس کے معماروں میں ایک نام انتظار حسین کا بھی تھا۔انہیں اپنا خواب کیوں ادھورا چھوڑنا پڑا، اس بارے انھوں نے تذکرہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔

وہ 1947 میں بلند شہر(یوپی) سے کراچی جانے کی بجائے پنجاب رک گئے اور تاعمر لاہور ہی رہے ۔ اْردو کا نوحہ تو انھوں نے خوب رقم کیا مگر اس زبان کو پاکستانی مادری زبانوں سے جوڑنے کی بصیرتوں سے دور ہی رہے۔ ان کی نظر کبھی پنجابی زبان سے ہونے والی زیادتیوں کی طرف نہ گئی حلانکہ وہ 68 سال پنجاب ہی میں رہے۔شاید ان کی ملاقات سید اختر حسین سے نہ ہوئی تھی جو پشتو بولنے والے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے مگر لاہور بسنے کے بعد نہ صرف پنجابی کے لکھاری بنے بلکہ تاعمر پنجابی کا رسالہ ’’لہراں‘‘ نکالتے رہے۔
پاکستان میں جب بھی مذہبی قوم پرستی، نظریہ پاکستان اور انتہا پسندیوں کی تاریخ لکھی جائے گی تو ادبی محاذ پر اس کے سر خیلوں میں محمد حسن عسکری اور انتظار کا نام نامی بھی کنندہ ہوگا۔ ترقی پسندوں اور روسی انقلاب سے انہیں چڑ تھی جو انہیں مذہبی قوم پرستی کی دلدل تک لے گئی۔ 1949میں جب انجمن ترقی پسند مصنفین نے لاہور کے لارنس گارڈن میں اپنی کانفرنس منعقد کی تو بقول روف ملک ترقی پسندوں کے خلاف ہر طرح کے الزامات لگانے والوں میں شورش کاشمیری،وحید قریشی اور انتظار حسین جیسے ’’خدائی خدمتگار‘‘ پیش پیش رہے۔ذرا غور کریں شورش تو احرار میں تھے مگر ترقی پسندوں کو نومولود ملک کی پالیسیوں سے دور رکھنے کے ایجنڈے پران میں ’’حسین‘‘ اتفاق تھا۔ترقی پسندوں کے خلاف فتوئے آئے، انہیں غدار اور اسلام دشمن کہا گیا کہ یہ وہی نعرے ہیں جنھیں بعدازاں پاکستان کی سیاستوں میں آمروں نے اپنے سیاسی مخالفوں کے خلاف تواتر سے استعمال کیا۔ٹھیک ہے کہ ایرک سپرین، خواجہ مسعود، صفدر میر، میجر اسحاق، سی آر اسلم، شمیم اشرف ملک، سوبھو گیان چندانی،شیخ رفیق، میاں محمود علی قصوری، شیخ رشید، فیض احمد فیض،احمد راہی، آصف خان، میاں افتخارالدین، مظہر علی خان، افضل بنگش،عزیزالحق،امام علی نازش، نبی احمد، دادا فیروز الدین منصوراور طاہرہ مظہر علی مر چکے ہیں مگرعابدحسن منٹو، روف ملک، رضا کاظم، ایرک رحیم،طفیل عباس، عزیزالدین احمد ،نجم حسین سیدجیسے تو زندہ ہیں جو 1950اور 1960کی دہائیوں میں لڑی جانے والی کشمکش کے گواہ ہیں۔یہ پاکستان میں انتہا پسندیوں کے تگڑے ہونے کی وہ تاریخ ہے جو ابھی لکھی جانی ہے۔ 
 صفدر میر کے ساتھ ان کی کشمکش کا زمانہ گواہ ہے کہ یہ وہ کشمکش ہے جو پہلے دن سے بنیاد پرستوں، اعتدال پسندوں اور ترقی پسندوں کو درمیان جاری تھی۔اعتدال پسند اور ترقی پسند پاکستان کو اک ایسی فلاحی مملکت بنانا چاہتے تھے جس میں غیرمسلم پاکستانیوں کو برابر کا شہری سمجھا جائے، صوبائی خودمختاری پر عملدرامد ہو اور پاکستان کی ثقافتی رنگارنگی کا احترام کیا جائے۔مگر دوسرا گروہ ’’اسلام کی حاکمیت‘‘ کی آڑ لے کر نظریاتی سرحدوں کو سیدھا کرنے میں رجھا رہا۔اس گروہ کو پاکستان کی ثقافتی رنگارنگی بلخصوص پاکستانی مادری زبانوں سے بیر تھا اور یہ بنگالیوں سے اس لیے جان چھڑانا ضروری سمجھتے تھے کیونکہ 22 فیصدی غیرمسلم پاکستانیوں کی موجودگی میں’’اسلام کا نفاذ‘‘ ممکن نہ تھا۔اپنے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے انھوں نے ’’نظریہ پاکستان‘‘ اور ’’نظریاتی سرحدوں‘‘ جیسی اصلاحات ایجاد کیں۔یہ وہ باکمال خیال تھا جو علامہ اقبال، قائد اعظم سمیت بانیان پاکستان کو بھی سوجھا نہیں تھا۔یہ وہی ایجنڈا تھا جس کے بڑے سرپرست یحی خان کے وزیرشیر علی پٹودی تھے جو 1966 میں بھارت دشمنی پر مبنی قوم پرستی کی تشریح میں دو کتب انگریزی زبان میں لکھ چکے تھے۔یہ یحی خان دورہی تھا جب جسٹس کارنیلیس کو ’’اسلامی آئین ‘‘ لکھنے پر معمور کیا گیا اور اک دوسرے وزیر ایئرمارشل نورخان نے جو تعلیمی پالیسی بنائی اس میں سکول سسٹم پر تنقید کرتے ہوئے مدارس کو نظریاتی سرحدوں کا محافظ قرار دیا گیا۔ایجنڈا تو تیار تھامگر بیچ میں ’’کمبخت ‘‘ بھٹو آگیا۔1970کے انتخابات ان کے لیے بڑا دھچکہ تھے کہ وہ اس دن کے لیے تو ’’اسلامیان ہند‘‘ سے نکل کر پاکستان نہیں آئے تھے۔ یہی وہ خوف تھا جس کے تحت انتظار حسین نے 10۔ اکتوبر 1971 کو روزنامہ مشرق میں ’’نظریاتی سرحدیں اور ساتواں در‘‘ کے عنوان سے پہلے کالم لکھا اور پھر اس کو دسمبر 1971 میں چھپنے والی کتاب ’’نظریہ پاکستان اور نصابی کتب‘‘ میں چھپوایا۔وہ سمجھتے تھے کہ پی پی پی کے ذریعے پاکستان میں سوشلزم اور روسی نظام کی تحسین ہونے لگی ہے جواس ملک کو ’’اسلامیان ہند‘‘ بنانے میں رکاوٹ ثابت ہو گی۔موصوف کا مضمون اس خوف کا مرکب تھا۔جس ساتویں در کی انہیں تلاش تھی اسے 5۔جولائی1977کو جزل ضیا الحق نے کھولاتو وہ بھبکہ آیا کہ انتظار کو لگ سمجھ گئی۔مگر ضیا جاتے جاتے ایم کیو ایم کا تحفہ دے گیا تو انتظار نے’’آگے سمندر ہے‘‘ لکھ کر اپنا رانجھا راضی رکھا۔
  16
۔ دسمبر 1971 نے انہیں جھنجوڑا تو ہوگا مگر انہیں بہاریوں پر ہونے والے مظالم زیادہ یاد رہے۔’’ حکمران زبان‘‘ اُردو کا نوحہ لکھتے وہ انگریزی کے کالم نویس بھی بن گئے۔ انہیں بجا طور پر یہ ڈر تھا کہ اُردو تو اس خطہ کی زبان نہیں اس لیے کسی بھی وقت اس ’’پرائی زبان‘‘ کی حمائیت ختم ہوسکتی ہے۔ ان کا ایک اور شوق تین نسلوں سے پنشن لینے والے بادشاہ کی سربراہی میں لڑی جانے والی ’’تحریک آزادی‘‘ کی حمائیت تھی جسے ’’پہلی جنگ آزادی1857 ‘‘ کا عنوان دیا جاتا ہے مگر اس میں وہ تنہا نہیں تھے۔
کے بعد9/11
انہیں مذہبی انتہا پسندیاں گھائل کرنے لگیں۔ ان کی بیٹکھوں میں نئے لوگ بھی شامل ہوتے گئے مگر انھوں نے بھول کر بھی کبھی اپنے پرانے بیانیے کو اس کی وجہ قرار نہ دیا۔ وہ طالبان کے مخالف طالبان کے مکتبہ فکر(فرقہ) کی وجہ سے تھے، طالبان کی پٹھان شناخت کی وجہ سے یا پھر طالبان کا بیانیہ انہیں اب غلط لگتا تھا، اسکا جواب آپ اْن کی تحریروں میں ڈھونڈیں اور جب مل جائے تو دوسروں کو بھی بتائیں۔ 
ادب سے ان کے لگاؤ سے انکار نہیں البتہ ارشد وحید کے ترجمہ کردہ ناول’’بقائے دوام‘‘ کی مکھ وکھالی میں مسعود اشعر کے بقول ان کے ترجمے زیادہ معیاری نہیں تھے۔اْردو سے ان کی محبت بھی جائز مگر جس بیانیے کو وہ تادیر سینے سے لگا کر ترقی پسندوں کو تہہ تیغ کرتے رہے اور اسکے نتیجہ میں ’’ساتواں در‘‘ کھل گیا تو وہ کچھ اپنی خدمات کا ذکر بھی کر دیتے تو اس توجہ دلاؤ نوٹس کی ضرورت نہ رہتی۔ آخری دفعہ ان کو کامران اسدر علی کی کمیونسٹ پارٹی پر لکھی کتاب کی تقریب رونمائی میں دیکھا کہ میں حیران ، کیا ترقی پسندوں بارے ان کی رائے بدل گئی ہے اور انہیں اپنی غلطیوں کا احساس ہو گیا ہے مگر یہ تاثر کتاب بارے لکھے ان کے کالم پڑھ کر جلد ہوا ہو گیا۔کامران کے بزرگ بہار سے مشرقی بنگال آئے تھے اور انتظار حسین انہیں دیکھنے ہی آئے تھے۔ انھوں نے منٹو کا سہارا بھی خوب استعمال کیا مگر منٹومعاشی لالچ پر مبنی ادبی بحرانوں اور سیاسی لالچ پر مبنی معاشی بحرانوں کا شکار نہیں ہوا۔وہ اس وقت سب کچھ تج کر پاکستان چلا آیا تھا جب بمبئی میں اس کا طوطی بولتا تھا۔ترقی پسندوں نے منٹو کو معطون قرار دیا مگر منٹو نے ترقی پسند فکر پر تنقید نہ کی بلکہ ’’انکل سام کے نام خطوط‘‘ لکھتا رہا۔ 


No comments:

Post a Comment

Linguistic diversity is the backbone of Mother Tongue movement: An unfortunate case of Bengali

  Linguistic diversity is the backbone of Mother Tongue movement An unfortunate case of Bengali  In 1999 Bangladesh initiated 21st Feb as In...